کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کا پرچہ لیک کرنے والے گروہ کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کرلی۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈی کیٹ کا پرچہ ڈاکٹر ونود کمار کے نمبر سے لیک ہوا۔ ان کے موبائل فونز کو قبضے میں لے کر فارنزک تجزیہ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ونود کمار کے موبائل سے ڈیلیٹ کیے گئے پیغامات کی بازیابی کی گئی، جنہوں نے 21 ستمبر 2024 کو رات 8:16 پر ایک واٹس ایپ گروپ میں پرچہ شیئر کیا تھا۔
مشتبہ ٹیسٹ پیپر 5 مختلف واٹس ایپ گروپوں میں تقسیم کیا گیا، جبکہ یہ دو افراد کو الگ سے بھی بھیجا گیا۔ وائس نوٹ اور اسکرین شاٹس نے ڈاکٹر ساجد محمود کی شمولیت کی بھی نشاندہی کی۔
مزید یہ کہ، دستیاب پتے پر سرچ وارنٹ حاصل کر کے وہاں گئے، لیکن ڈاکٹر ساجد محمود وہاں موجود نہیں تھے۔ سی ڈی آر اور دیگر ریکارڈ کی مدد سے تلاش کی گئی، مگر ابھی تک معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے 6 مشتبہ ملازمین کے موبائل فونز کا فارنزک تجزیہ جاری ہے۔
آج سندھ ہائیکورٹ نے داخلہ ٹیسٹ کے دوبارہ انعقاد کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 4 ہفتوں کے اندر ٹیسٹ دوبارہ کرایا جائے۔ کیس کی سماعت کے دوران کمیٹی کے ارکان کی موجودگی پر عدالت نے سوال کیا کہ کمیٹی نے کچھ کیا یا صرف سوتے رہے؟
کمیٹی کی چیئرپرسن شیریں ناریجو نے عدالت میں رپورٹ پیش کی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بنیادی ذمہ داری پی ایم ڈی سی اور ڈاؤ یونیورسٹی کی تھی۔ ٹیسٹنگ ایجنسی کا کردار مختلف ہوتا ہے، آپ جامعات کو پھنسا دیتے ہیں، کبھی جناح سندھ یونیورسٹی کو ذمہ داری دی تو کبھی ڈاؤ یونیورسٹی کو۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے پی ایم ڈی سی کے وکیل سے کہا کہ جہاں طاقتور لوگ ہیں، آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آج ہی ایم ڈی کیٹ کے نتائج کا اعلان کریں، کیا 8 ہزار روپے فی امیدوار لیے گئے؟ یہ غریب کے لیے بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ امتحان بظاہر کمپرومائزڈ ہوا ہے۔ حیدر آباد اور ایک اور بورڈ نے ابھی تک نتائج کا اعلان نہیں کیا۔ پی ایم ڈی سی کے وکیل نے کہا کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی، اس پر عمل کریں گے۔