مزاحمتی شاعر فیض احمد فیض کی سینتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ فیض کے اشعار کی انقلاب آفرینی آج بھی جذبوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔
اردو زبان کےعالمی شہرت یافتہ شاعرفیض احمد فیض نے تیرہ فروری انیس سو گیارہ کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، کالج کی ادبی فضا میں ہی اگرچہ فیض نے شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا تاہم ترقی پسند تحریک کا رکن بننے کے بعد ان کی شاعری غمِ جاناں کے کرب سے کہیں آگے نکل گئی۔ فیض کا تخلیقی سرمایہ نو شعری، دو نثری اور ایک مجموعہ خطوط پر محيط ہے۔
انیس سو تریسٹھ میں فیض کو لندن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض احمد فیض یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے ایشیائی ادیب تھے، فیض کا کلام دنیا کی کئی زبانوں میں منتقل ہوچکا ہے جب کہ ان کے الفاظ ، استعارے اور شاعرانہ اسلوب آج بھی آگہی کے محرک کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ فیض کی شاعری کو اردو، پنجابی، ہندی، انگریزی اورروسی سمیت متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
نو مارچ انیس سو اکاون میں فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت كے الزام میں گرفتاركرکے چار سال تک سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی میں قید رکھا گیا۔ فیض احمد فیض کی شکل میں شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے لیے بلند ہونے والی آواز بیس نومبر انیسو سو چوراسی کو تہتر برس کی عمر میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔