سپریم کورٹ میں 16 ہزار برطرف سرکاری ملازمین کی اپیلوں پر سماعت

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سولہ ہزار برطرف سرکاری ملازمین کی اپیلوں پر سماعت ہوئی ۔انٹیلی جنس بیورو کے سابق ملازمین کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک عبوری حکومت نے ملازمین کو فارغ کیا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملازمین بحالی کے قانون کی غلط تشریح کی۔

سولہ ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کے ٖفیصلہ کیخلاف درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ختم شدہ کنٹریکٹ گیارہ سال بعد کیسے بحال ہوگئے؟۔ جن کے کنٹریکٹ بحال ہوئے انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا؟ ۔کیا تمام ملازمین دہشتگردی کی کارروائی میں زخمی ہوئے تھے؟

وکیل سوئی گیس وسیم سجاد نے کہا کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت ملازمین کو بحال کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے شواہد کہاں ہیں؟ ۔ صرف انہی لوگوں کو کیوں بحال کیا گیا۔ وسیم سجاد بولے عدالت پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث منگوا کر جائزہ لے۔ اس عمر میں ملازمین کہاں جائیں گے؟۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ملازمین کی بحالی کا قانون آئین کے مطابق ہونے پر آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی۔ عدالت نے سوئی گیس ملازمین کے وکیل وسیم سجاد سے تحریری دلائل مانگ لیے۔

آئی بی افسروں کے وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ انیس سو چھیانوے میں نگران حکومت نے آئی بی ملازمین کو برطرف کیا تھا نگران حکومت کو برطرفی کا اختیار نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایکٹ کو صحیح سے پرکھا نہیں گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک جماعت کے بھرتی کیے ملازمین برطرف کیے جائیں۔ پارلیمنٹ نے لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کو قانون سازی کر کے فائدہ کیوں پہنچایا؟۔

وکیل افتخار گیلانی نے کہاکہ سپریم کورٹ خود کہہ چکی کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے۔قانون سازوں کی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلےپر نظر ثانی کرے۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More