اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی کیس قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ مزید سماعت 18 مارچ تک ملتوی کردی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنیٹر یوسف رضا گیلانی اور علی حیدر گیلانی نااہلی کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ ہم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی اور سینیٹ نشست پر دوبارہ الیکشن چاہتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 2018 کے تحت شفاف، غیر جانبدار الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کرپٹ پریکٹسز کے حوالے سے پانچ ویڈیوز جمع کرائی گئیں۔ الیکشن کمیشن سو موٹو نوٹس لیکر خلاف ورزی پر ایکشن لے سکتا ہے اور دوبارہ الیکشن کا حکم دے سکتا ہے۔
ممبر ناصر درانی نے استفسار کیابتائیں کس طرح سینیٹ الیکشن میں کس طرح سنگین خلاف ورزی ہوئی۔ کیا پرائیویٹ ممبر سٹنگ آپریشن کرسکتا ہے دانستہ کیمرے لگا کر ریکارڈنگ کی گئی اس پر قانون کیا کہتا ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی ووٹ کے بدلے رشوت کی پیشکش کرے تو اسکی ویڈیو بنانے میں کیا غلط ہے۔
الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کیس قابل سماعت ہونے یا نا ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جبکہ مرکزی کیس میں دلائل دیتے ہوئے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ووٹر کو رشوت کی پیشکش کرنا کرپٹ پریکٹس ہے۔
ممبر سندھ نثار درانی نے استفسار کیا۔ کیا صرف رشوت کی پیشکش پر کارروائی ہو سکتی ہے؟ وکیل نے جواب دیا رشوت کی پیشکش ہی دراصل جرم ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا علی گیلانی کی پیشکش کو یوسف رضا گیلانی سے کیسے جوڑیں گے؟ علی ظفر نے جواب دیا علی حیدر گیلانی نے اعتراف کیا کہ وہ والد کیلئے ووٹ مانگ رہے تھے۔
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست گزار ملیکہ بخاری اور کنول شوذب کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم اور ان کے بیٹے نے قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ آصف زرداری اراکین اسمبلی کے ضمیروں کو خریدنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایسے اقدامات کرے کہ کوئی کسی کا ضمیر خرید نہ سکے۔