Urdu
بلاگز

سندھ میں لاک ڈاون یا سرکاری ہڑتالیں؟

امتیازچانڈیو

Twitter: @imtiazchandyo

کبھی کبھار یوں لگنے لگتا ہے کہ سندھ کسی بادشاہی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ شاہی نظام کا تصور اس وقت زور مزید پکڑتا ہے جب ہمارے اس خطے کے اندر عجیب و غریب فیصلے ہونے لگتے ہیں۔ جیسے کسی بادشاہ کو اپنے مشیر نے بتایا کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں کھانے کو روٹی نہیں تو بادشاہ سلامت نے کہا کہ وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ بالکل اسی طرح سندھ میں زمینی حقائق سے ناواقف حکمران کو بھی جب کوئی بتاتا ہے کہ صاحب گذشتہ دو برسوں میں جب سے کورونا جیسی وبا آئی ہے تب سے غریب پس کر رہ گیا ہے؟ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، جس تھر میں پہلے بچے بھوکے مر رہے تھے اب وہاں مائیں کنووں میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کر رہی ہیں، جو لوگ دہاڑی پر روزی روٹی کی تلاش میں نکلتے تھے اب ان کے گھروں میں بھوک و افلاس رہنے لگتی ہے۔۔ شاید کھانے کو دیکھے بھی ان کو وقت بڑا وقت گذرگیا ہو سو برائے مہربانی رحم فرمائیں، لیکن عین اس وقت ایسی رپورٹیں سن کر بادشاہ سلامت یہ حکم فرماتے ہیں کہ پورا صوبا بند کردو۔۔۔یہ سوچے سمجھے بنا کہ ان کے فیصلوں سے کیا منفی اثرات پڑ رہے ہیں، کس طرح غریب صوبے کے کروڑوں لوگ اس قسم کے فیصلوں سے متاثر ہو رہے ہیں؟ لیکن ان سب سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہمارے اقتدار میں بیٹھے حاکم صوبہ سندھ میں اس طرح کا تاثر دے رہے ہیں کہ یہ ایک بلکل فلاحی ریاست ہے، بیروزگار اور غریب طبقے کو ہر ماہ سرکار خرچہ دیتی ہے، روزگار کے وسائل انٹرنیٹ اور فون ایس ایم ایس کے ذریعے گھر بیٹھے فراہم کیے جا رہے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں دنیا کی ہر سہولت موجود ہے، جہاں لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں، ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاوں میں صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں نہ چلے جائیں، شہروں میں جدید ترین ڈرینیج اور سوریج سسٹم کے ساتھ صفائی ستھرائی کا نظام نافذ ہے، بچوں کو صبح سرکاری گاڑیاں اٹھا کر اسکول لے جاتی اور لے آتی ہیں، جو والدین بچوں کو نہیں پڑہاتے ان کو حکومت سخت سزائیں دیتی ہے، اس طرح امن امان ایسا ہے کہ اگر کوئی ڈاکو پولیس والوں کو قتل کر کہ بکتر بند پر قبضہ کرنے کی جرئت تک نہیں کرتا، صوبے کے دارالحکومت میں تو کسی کو ہمت تک نہیں ہوتی کہ وہ کوئی جرم کر سکے۔ اب ان تمام سہولیات کے بعد جو حکومت کی بڑی اہم ذمہ داری بنتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست کے اندر عوام کی جان کو ان عالمی وبائوں سے بچائے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا دنیا میں خطرناک وبا ہے، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن جن ممالک کے اندر معیشت اتنی محستکم ہے کہ وہ دس سال تک بھی لاک ڈاون لگائیں تو بھی ملک چلا سکتے ہیں ان ممالک نے بھی کورونا کے پیش نظر کیے گئے بڑے سخت فیصلوں میں نرمی لانا شروع کی ہے، اور ان ترقی یاقتہ ممالک کے عوام نے بھی بھرپور ساتھ دیا ہے مگر ہماری قوم کو ان کے برابر کیسے لایا جائے جہاں ریاست اپنی مکمل زمہ داری ادا کرنے میں پہلے دن سے ناکام ہے اور اس ریاست کے اندر بھی سندھ وہ صوبہ ہے جس میں بدانتظامی، بیروزگاری اور غربت انتہا درجی تک پنہچ چکی ہے۔ جہاں کورونا سے زیادہ لوگ تو گندہ پانی پینے کی وجہ سے کالے یرقان اور جگر کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔۔جہاں چپڑاسی کی نوکری بھی تین لاکھ میں بکتی ہو اور تین لاکھ سے زائد لوگ اس نوکری کو حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دیتے ہوں، ایسے صوبے میں ہمارے حکمرانوں کو فکر ہے تو صرف کورونا سے لوگوں کو بچانے کا۔ باقی انہوں نے تمام فرائض سرانجام دے دیئے ہیں صرف ایک یہی فریضہ رہ گیا تھا جو وہ پورا کر رہے ہیں، جن محکموں کی رپورٹس اور اعداد و شمار پر ہمارے حاکم آنکھیں بند کر کہ یقین کر رہے ہیں اور دنیا میں کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان محکموں کا نچلی سطح تک کوئی رابطہ ہی نہیں کہ وہ درست اعداد و شمار حاصل کر سکیں، مشکوک اور مبینہ جعلی رپورٹس پر اہم فیصلے کر کہ فخر محسوس کیا جا رہا ہے۔ جس پرافسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

حکومت سندھ نے چوتھی بار صوبے کے اندر لاک ڈاون کا اچانک فیصلہ کیا گیا ہے اسے عام مخلوق سرکاری ہڑتال کا نام دے رہی ہے دلچسپ پہلو یہ کہ اس لاک ڈاون میں لاڑکانہ سکھر اور نوابشاہ اور حیدرآباد کی گاڑیاں اور لوگ کراچی نہیں آئیں باقی دوسرے صوبے کی ٹرانسپورٹ چلتی رہے تو کوئی مسئلا نہیں۔ عام لوگ جو کراچی سے کہیں اور شہر جائیں یا کراچی آئیں ان کو آنے سے کوئی روک تو نہیں سکتا مگر ان پر مالی بوجھ زیادہ پڑگیا ہے۔۔ وہ غریب طبقہ جو 500 سے 1000 رپے بس کا کرایا کر کہ آیا جایا کرتا تھا وہ اب 5000 سے 10000 ہزار تک خرچ کر کہ ٹیکسیاں کراکہ پنہچ رہے ہیں، جبکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے آنے والی ٹرانسپورٹ بھی اسی دھندے میں لگ گئی ہے کہ سکھر سےکراچی یا راستے سے مسافراٹھا کر ان سے ڈبل کرایا لیکر ان کو کراچی تک لے آ اور جا رہی ہے، لیکن ہمارے بادشاہ سلامت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بادشاہ سلامت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جو غریب لوگ ہیں نا یہ پکنک منانے نہیں نکلتے، ان کو روزگار کی تلاش ہوتی ہے یا پھر کوئی گھر میں کوئی سخت بیمار مریض ہوتا ہے تب چندہ لیکر ان کو لیکر کراچی کی ہسپتالوں میں اس امید سے لے آتے ہیں کہ یہاں کچھ نہ کچھ اچھا علاج ہوجائے گا کیونکہ باقی سندھ تو بادشاہ نے ٹھیکے پر دے رکھی ہے جس پر نہ میڈیا کی نظر ہے نہ سیاستدانوں کی۔ اس لیے باقی سندھ کے اضلاع لاوارث ہیں وہاں جو کچھ بھی ہو جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے اگر کوئی چلا بھی رہا ہے تو وہ اس لیے کہ معاشی حب بند ہے مگر بادشاہ سلامت کو کریڈٹ لینا ہے کہ جب کورونا آیا تھا تب اس نے بھرپور لڑائی لڑی تھی۔ شہروں کے شہر بند کرائے تھے، پہلے لوگ کراچی میں اچانک ہڑتالوں سے ڈرتے تھے اب سرکاری ہڑتالوں سے خوفزدہ ہیں لیکن یہاں قصور صرف حاکموں کا نہیں، بلکہ قوم کا بھی ہے، جس قوم کومنتیں کی جا رہی تھیں کہ ویکسین کرائو تو نہیں کروا رہے تھے مگر جب موبائل سم بند کرنے کی دھمکی دی تو سب کے سب باہر نکل آئے اور حالت یہ ہے کہ ویکسنیشن سینٹر پر پیر رکھنے کی جگھ نہیں وجہ اپنی زندگی سے پیار نہیں بلکہ موبائل سم بند ہونے کا خطرہ ہے۔

Related posts

کورونا متاثر امریکا میں سیاحت کا آغاز اور پاکستان میں سیاحوں کے لیے مشکلات

ibrahim ibrahim

پی سی بی جونیئر پاتھ وے کرکٹ پروگرام

Rauf ansari

آسٹریلیاکا دورہ پاکستان، ایک خواب جو مکمل ہوا

Rauf ansari

Leave a Comment